مُلکی اداروں کو سیاست سے دور رکھیں

بقلم: کاشف شہزاد

مُلکی اس ہما ہمی میں یہ کہنے کہ اشد ضرورت ہے کہ قومی اداروں کو سیاسی آویزش کا حصہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ اداروں کا وقار، ساکھ، پیشہ وارانہ قابلیت، ریاستی وقار، بھرم اور اقوامِ عالم میں معتبر حثییت کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔ جمہوری سیاست کا اصول بھی یہی ہے کہ ریاست اور سیاست کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رکھا جاتا ہے۔ سیاسی رہنما اپنے مدار میں کام کرتے ہیں اور اپنے سیاسی پروگرام کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں اور اپنی بات کا پرچار کرنے کے لئے جائز ذرائع بروِے کار لاتے ہیں جبکہ ریاستی اداروں کو بلا روک ٹوک اپنے فرائض منصبی ادا کرنے دیا جاتا ہے۔ سیاسی قوتیں قومی اداروں کو اپنی سوچ کے تابع لانے کی غیر ضروری کوششیں نہیں کرتیں، یہ مانتے ہوِے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اس سے سیاست اور ریاست دونوں کو نقصان ہوگا۔ اگر ترقی یافتہ دُنیا کی مستحکم جمہورتوں کو دیکھیں تو ہم میں اور ان معاشروں میں جو نمایاں فرق ہیں ان میں ایک بڑا واضح فرق یہ ہے کہ ان ممالک کی سیاسی جماعتوں میں ریاستی اداروں پر مسلط ہونے کا اوتاولا پن نہیں ملتا اور اداروں کو سیاسی دائروّں میں کھینچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً وہاں اداروں کی مضبوطی سے ایسا مستحکم نظامِ ریاست قائم ہو چکا ہے کہ کسی حکومت کے آنے یا جانے سے ریاستی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں خود کو ملک و قوم کے لئے لازم و ملزوم سمجھ کر سیاست کرتی ہیں اور خود نمائی کی حد یہ ہے کہ کوئی اپنے سوا کسی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دیر پا منصوبہ بندی جو پائیدار ترقی کی ایک بنیادی ضروری ہے کا میرے مُلک میں ماحول نہیں بن پا رہا۔ ہر آنے والی حکومت نئے سرے سے شروع کرتی ہے اور اس کے جانے کے ساتھ سارا پروگرام بھی رُخصت ہو جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں ترقی کے امکانات کو ثمر بار کرنے کے لئے اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اداروں کو سیاسی سوچ کے زیرِ اثر لانے کی خواہش کو ترک کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس ڈھانچے کو مضبوط سے مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور حتی الوسع یقینی بنائیں کہ اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی نوبت نہ آئے۔ اداروں کا احترام اور غیر جانبداری کا لحاظ سبھی سیاسی جماعتوں کے لئے لازم ہے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر سیاسی رہنما اپنے چپقلش میں اداروں کو رگیدنے سے ہر صورت اجتناب کریں اور یقینی بنائیں کہ ایسا کوئی عمل انکی جماعت کی سطح پر نہ ہو جس سے اداروں کے وقار پر حرف آتا ہو۔ دراصل اداروں کے خلاف سوچ سماج کو تقسیم کرنے اور فکری انتشار و خلفشار کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی رہنما جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہیں، ایسا نہیں کہ وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ان حقائق کو سمجھ نہ سکتے ہوں۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ باہمی سیاسی اختلاف کے باوجود وہ قومی بھلائی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی ترقی کی منزل پر پہنچنے کے لئے جو راستوں کے اختلافات ہیں۔انہیں بامعنی اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ وطنِ عزیز جلد سے جلد اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دُنیا میں حاصل کر سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں