عمران خان کی سیاست کے لیے الیکشن اس قدر اہم کیوں؟

تحریر ۔سامع حسنین

عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں قوم سے خطاب کرتے ہوٸے کہا تھا “اگر مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں اور زیادہ خطرناک ہو جاٶں گا”۔ اس اسٹیٹمنٹ پر ان کے سپوٹرز تو بہت خوش تھے مگر مخالفین نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوٸے خوب مزاق اُڑایا تھا۔ یہ بیان عمران خان نے اپنی مخالف قوتوں کو دیا تھا البتہ یہ اُن کی اپنی ذات اور سیاست پر بھی لاگو ہونے لگا اور عمران خان حکومت سے نکل کر صرف مخالفین ہی نہیں اپنے لیے بھی خطرناک ثابت ہوٸے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہ کیسے خود کیلیے خطرناک ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین سمیت ہر اک مخالف کی ناک میں دم کر رکھا ہے مگر حکومت چلی جانے کے بعد عمران خان ‘کرو یا مرو’ کی سیاست میں داخل ہو گٸے جس آر یا پار کے علاوہ کوٸی تیسرا آپشن نہیں ہوتا۔ عمران خان حکومتی ایوانوں سے نکلے تو عوامی مقبولیت اُن کے قدم چومنے لگی، لوگ ان کے لیے کثیر تعداد میں سڑکوں پر آٸے، ہر جلسہ کامیاب بنایا۔ سوشل میڈیا کی دنیا سے لے کر حقیقی دنیا تک ہر جگہ عمران خان کی حمایت میں عوام نظر آٸی اور اسی دوران عمران خان نے جنرل الیکشن کا مطالبہ کر ڈال۔ عمران خان کو معلوم تھا کہ اس وقت وہ جس شہرتِ دوام پر موجود ہیں، یہ مقبولیت عوامی جذبات کا نتیجہ ہیں اور وقت کے ساتھ یہ جذبہ ماند بھی پڑ سکتا ہے تو اسی اثنا۶ میں ان کی جانب سے جنرل الیکشنز کا پُرذور مطالبہ کیا گیا۔
دوسری جانب حکومت بھی جانتی تھی قبل از وقت عام ان انتخابات اُن کی سیاست کو کسی طور بھی مدد نہیں دیں گے چناچہ جنرل الیکشنز کے عمران خان کے مطالبہ کو بار بار ٹالتے رہے۔ جب عمران خان نے دھرنا ملتوی کیا تب پارٹی کے اندر سے ان کی پولیٹیکل اسٹریٹیجی کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگی۔ پنجاب کی سینیٸر قیادت اُن کے فیصلوں سے خوش نہیں تھی۔ مخالفین تمام تر قوتیں استعمال کرتے ہوٸے ان پر حملہ آور تھے۔ پھر پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوٸے اور پی ٹی آی کی حیرت انگیز برتری نے جہاں مخالفین کے دلوں میں ڈر پیدا کیا وہیں پی ٹی آی کے تمام رہنما عمران خان کی مخالفت چھوڑ کر ایک ہی قطار میں آکھڑے ہوے۔ انتخابات میں کامیابی سے پی ٹی آی پنجاب میں اپنی حکومت قام کرنے میں کامیاب ہوی۔ پھر عمران خان کو دبانے کی لیے مخالفین نے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ عمران خان کے حق میں بولنے والے صحافیوں اور پارٹی کے اہم رکن شہباز گل کی گرفتاری عمران خان کو پریشراٸز کا ہی ایک عمل تھا۔ عدالتوں کے چکر لگوانا، میڈیا پر پیمرا کے ذریعے تقریر بین کروانا، سوشل میڈیا سے عمران خان کو فاٸدہ ہونے کی صورت میں انٹرنیٹ ڈاٶن کرنا، یوٹیوب کو عارضی بلاک کرنا، عمران خان کے حق میں بات کرنے والے مین اسٹریم چینلز پر پیمرا سے پابندی لگوانا، الیکشن کمیشن سے مرحلہ وار استعفے منظور کروانا، برسوں پرانے فارن فنڈنگ کیس کو اب دوبارہ منظر عام پر لانا، اس سب میں مخالفین بھرپور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح عمران خان کی مقبولیت کا پردہ چاک کیا جاے مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوی۔ اب آگے ملتان کے حلقہ NA 157 میں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب ہونے جارہا ہے جس کے بعد مزید 9 نششستوں پر ایک ساتھ انتخاب کروایا جاے گا۔ یہ تمام نشستیں تحریک انصاف کی خالی کردہ ہیں۔ ان میں کامیابی حاصل کرنا پی ٹی آی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ان انتخابات میں کامیابی عمران خان کے جنرل الیکشن کے بیانیے کو تقویت دے گی اور اگر نتاج مختلف ہوے تو یقینی طور پر عمران خان کو شدید نقصان پہنچے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں