میرے ہم وطنوں، پاکستان کے عوام آپ کے منتظر ہیں

بقلم :کاشف شہزاد

بد قسمتی سے آج وطنِ عزیز کے طول و عرض میں سیلاب جیسی ہولناک قدرتی آفت نے پوری شدومٙد کے ساتھ پنجے گاڑ رکھے ہیں، اس کے بپھرے ہوئے بے رحم ریلے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو صفحہ ہستی سے مٹاتے جا رہے ہیں۔ جون سے تباہی و بربادی کا سلسلہ شروع کرنے والے سیلابی ریلوں نے اب تک لگ بھگ چار کروڑ لوگوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ چار لاکھ سے زائد گھر سیلابی پانی کی نظر ہوگئے ہیں۔ اسی طرح سیلابی پانی میں بہہ جانے والے مویشیوں کی تعداد سولہ لاکھ سے تجاوز کر چُکی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کھڑی فصلیں، سڑکیں، پُل، بجلی کی تنصیبات سب کچھ طوفانی لہروں کی نذر ہو گئے ہیں۔ متاثرین سیلاب بھوک و پیاس کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ الغرض موجودہ خوفناک سیلاب بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں جس طرح کی تباہی و بربادی کر رہا ہے وہ شائد پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے۔ پاکستان میں سیلابوں کی ایک طویل تاریخ ہے جن میں اب تک تقریباٙٙ 38 بڑے اور تباہ کُن سیلاب پاکستان سے ہو گزرے ہیں جن میں 2010 کے سیلاب کی تباہی تاریخی تھی جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو برباد کیا تھا۔ لیکن مصیبت و دُکھ کی ان گھڑیوں میں جس طرح پاکستانی عوام نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس قدرتی آقت کے وقت پاکستانیوں نے بڑی دریا دلی، اور سخاوت کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستانی قوم دوسروں کی مدد کرنے کے حوالے سے دُنیا بھر میں 142ویں نمبر پر تھی مگر 2010 کی ریکارڈ ڈونیشن کے بعد ہے 34ویں نمبر پر بُرجمان ہو گئی اور یوں اس قوم نے دُنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ہم ایک درد مند، زندہ، ایثار اور قربانی کے جذبے سے سرشار قوم ہیں۔ آج پاکستان کا شمار خیراتی و فلاحی کاموں میں امداد دینے والے صفِ اوّل کے مُلکوں میں ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا کے بعد پاکستانی شہری خیرات و امداد دینے کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہیں جو کہ مجموعی قومی پیداوار کے ایک فی صد کے برابر ہے، جو سالانہ تقریباٙٙ 246 ارب روپے خیرات کی مٙد میں اپنے غریب ہم وطنوں کی فلاح و بہبود اور امداد پر صرف کرتے ہیں۔ آج تمام پاکستانیوں کو ایک بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ سیلاب زدگان کی تکالیف و مسائل نا صرف بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ اُنکی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ہماری فلاحی تنظیمیں، سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہر دم آفت زدہ علاقوں میں متحرک ہیں لیکن اُنہیں اتنی بڑی قدرقی آفت کا مقابلہ کرنے اور متاثرین سیلاب کی داد رسی کے لئے مالی و مادی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ گو کہ اس سلسلے میں سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ہر متحریک تنظیم نے ریلیف فنڈ قائم کیا ہے، اور ہمارے مخیر حضرات بھی حسبِ روایت اس کار خیر میں حصّہ لینے کے لئے سرگرم ہیں، لیکن اس بار سیلاب زدگان کی امداد کے لئے تمام جماعتوں کے سربراہان اور مراعات یافتہ طبقے کے افراد کو پہل کرنی چاہیے اور ذاتی حثییت سے اپنی جیب خاص سے نقدی اور امدادی سامان کے سوشل میڈیا پر اعلانات، ٹویٹس اور ٹرینڈ چلانے چاہیں۔ ان سب کو اپنے کپڑے، آٹے، چینی اور گھی کے کارخانوں کے منہ مصیبت میں گھرے ہوئے ہم وطنوں کے لئے کھول دینے چاہیں تاکہ اُنہیں یقین ہو جائے کہ ہمارے رہنما و اٙمرا صرف زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ہمارے دُکھ درد بانٹنے کے لئے ہماری پُشت پر کھڑے ہیں۔ یہاں میں سمندر پار پاکستانی بھائیوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر سیلاب زدگان کی دل کھول کر مالی مدد کریں۔ مجھے یقین ہے کہ قوم کے تمام افراد ایک بار پھر اپنی حثییت و استطاعت کے مطابق بلا تامل سیلاب زدگان کی مدد کریں گے۔ سب ملک کر ہمت کریں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں پاکستان کے عوام کے حالات سے آشنا کریں تاکہ اس بار خیرات و امداد کے حوالے سے اپنے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ کر مخیر قوموں کی صف میں سب سے آگے آ جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں