وفاقی حکومت نے پاکستان کی شہہ رگ دبوچ لی

انیب ظہیر

2019 میں جب عمران خان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو کشمیر کے مسٸلے کو اجاگر کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ہونے والے مظالم پر آواز بلند کی۔ تب ہی اِدھر پاکستان میں موجود اُس وقت کی اپوزیشن نے میڈیا پر مہم چلاٸی کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر دیا۔ ہر جگہ یہی واویلا کیا۔ مگر رجیم چینج آپریشن نے ان کے سب پول کھول کر رکھ دیے۔ جہاں ان کی حکومتی کارکردگی سے عوام پانچ ماہ کے اندر ہی رونے پر مجبور ہو گٸی ہے وہیں ریاستِ کشمیر کے ساتھ ان کے سوتیلوں والے سلوک نے پاکستان اور کشمیر کی دنیا میں جگ ہنساٸی کرانے میں کوٸی کسر نہیں چھوڑی۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو کشمیر میں ن لیگ کے ہم خیالوں کی حکومت تھی۔ مگر عمران خان نے اپنی سیاسی عداوت کو ایک جانب رکھ کر کشمیر کی بہتری کے لیے ان کے فنڈز جاری رکھے۔ جوں ہی عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو کشمیر کی حکومت کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں شروع کردی گٸیں۔ ریاست آزاد کشمیر کے وزیر براٸے مالیاتی اُمور عبدالماجد خان سے ملاقات میں چند اہم باتیں معلوم ہوٸیں۔ ریاستِ آزاد کشمیر کا پاکستان سے ایک مالیاتی معاہدہ ہے جس کے تحت حکومتِ پاکستان کو ہر سال ٹوٹل ٹیکس کولیکشن کا 3.6 فیصد کشمیر حکومت کے سپرد کرنا ہوتا ہے جس سے ریاست کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، پینشنز، اجناس کی خرید اور ایسے دیگر اہم معاملات کو انجام دیا جاتا ہے۔ اس کو غیر ترقیاتی بجٹ کہا جاتا ہے جس سے ریاستِ آزاد کشمیر کے بنیادی معاملات طے پاتے ہیں۔ گزشتہ برس عمران خان کی حکومت نے کشمیر حکومت کو غیر ترقیاتی بجٹ کی مد میں 74 ارب روپے ادا کیے۔ اس سال ٹیکس کولیکشن زیادہ ہوٸی تو کشمیر کو ادا کی جانے والی رقم میں بھی اضافہ متوقع تھا مگر تجربہ کار کہلاٸی جانے والی حکومت نے تجربے کا استعمال کشمیر کے بجٹ کو مینوپلیٹ کرنے میں لگایا اور یوں کشمیر حکومت کو مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے 60 ارب تھما کر منہ موڑ لیا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کی مد میں پچھلے سال آزاد کشمیر کو 34 ارب روپے ادا کیے گٸے تھے جبکہ اس بار مفتاح اسمٰعیل دامن بچاتے ہوٸے صرف 26 ارب دینے پر آمادہ ہوٸے جبکہ مہنگاٸی کی شرح میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہو چکا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے 26 ارب میں سے ابھی تک صرف 2 ارب 60 کروڑ ہی کشمیر کو ملے ہیں۔ غریب روزہ رکھے تو دن بھی لمبے ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ بیچاری کشمیر حکومت کے ساتھ ہے کہ ایک جانب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا تو وفاقی حکومت کے سرد رویے نے عوام کے سامنے شرمندہ کرنے کی ٹھان لی۔ وزیرِ اعظم کے مشیر براٸے کشمیر امور قمر زمان کاٸرہ اور وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے ملاقات کیلیے کشمیر حکومت نے ایک وفد اسلام آباد بھیجا مگر وفد کی تمام کاوشیں بھی بےسود رہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے کشمیر حکومت کو خط لکھ کر مزید رقوم کی اداٸیگی سے معزرت کرلی یہ کہہ کر کہ اس وقت مالی حالات اس قابل نہیں ہیں۔ اس سارے معاملے میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کو موقع فراہم کیا جارہا ہے کہ وہ اس نارواٸی کو بنیاد بنا کر دنیا کو یہ پیغام بھیجے کہ آٶ دیکھو کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہنے والے کس طرح کی ناانصافیاں کر رہے ہیں، ہم پر ظلم کا الزام لگانے والے کشمیر کی عوام کا دانہ پانی چھیننے کے درپے ہیں۔ بھارتی میڈیا اس پر مہم چلاٸے کہ ہم سے کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے خود ان کے پیسے بھی کھانے لگے۔ ہمیں ظالم کا طعنہ دینے والے خود کشمیر کے لوگوں کے حقوق صلب کرنے لگے۔
اپنے سیاسی مقاصد کو تقویت دینے کیلیے کشمیر کے لوگوں کے حقوق کا سودا کیا گیا۔ کشمیر بھر سے ریکارڈڈ 83 ہزار سرکاری ملازمین نے ہڑتال کی جن سے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس اور وزیرِ خزانہ عبدالماجد خان نے کہا کہ ہم اپنی عوام جن کے مینڈیٹ سے اقتدار میں آٸے ہیں ان کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ چاہے تو ہمیں ادھار لینا پڑے یا اپنی جیب سے پیسہ لگانا پڑے ہم یہ ذمہ داری سرانجام دیں گے۔ ان سب معاملات کے چلتے اب کشمیر میں تحریکِ عدم اعتماد کی بازگشت بھی سناٸی دے رہی ہے۔ اور پلان یہی ہے کہ جس طرح وفاق میں چلتی حکومت کا تختہ پلٹا گیا کشمیر میں بھی ایسا ہی کیا جاٸے مگر وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کے بقول کشمیر کا مینڈیٹ بکاٶ نہیں ہے۔ البتہ اگر کشمیر کے لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا اور منتخب شدہ نماٸندگان عوام سے کیے وعدے وفا نہ کرسکے جو کہ مالی معاملات کو دیکھتے ہوٸے مشکل کام نظر آتا ہے تو آٸندہ انتخابات میں نتاٸج مختلف ہونے کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ اسی کے پیشِ نظر وفاقی حکومت کشمیر حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے تاکہ اگلے عام انتخابات میں اپنی مرضی کے نتاٸج حاصل کرسکے۔ قصہ المختصر پی ڈی ایم نے اپنی رسی کی خاطر کشمیری عوام کی گاٸے حلال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اب اس سے چاہے بھارت کو باتیں بنانے کا موقع ملے یا دنیا میں جگ ہنساٸی ہو یا پھر کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آٸے 11 پارٹیوں کی متحدہ حکومت کو اپنی رسی زیادہ عزیز ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں