کیا آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان دیوالیہ ہو رہا ہے؟

بقلم: کاشف شہزاد

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اس وقت سنگین معاشی صورتحال کا سامنا ہے لیکن اس صورتحال میں بھی کچھ لوگ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں جو کہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک ہی روز میں ڈالر کی قدر میں 10 سے 12 روپے کا اضافہ دیکھنے ملتا ہے جبکہ اگلے ہی روز روپے کی قدر 10 روپے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے اس بات سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ کرنسی بھی دیگر معاملات کی طرح غیر فطری اُتار چڑھاوّ کا شکار ہے؟ اس غیر فطری اُتار چڑھاوّ کے نتیجے میں کچھ لوگ بہت سا پیسہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ اب اس غیر فطری پیسے کی ہل چل کو اسٹیٹ بنک اپنے اقدامات کے ذریعے روک سکتا ہے کیونکہ اگر اسٹیٹ بنک اس سارے عمل کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے تو اس سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی عمل میں آئے گی جو عوام پر تباہ کُن مہنگائی کا باعث بن رہی ہے۔ یقیناٙٙ عوام پر مہنگائی کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے کہ یہ برداشت سے باہر ہے۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 4.9 فیصد تک جا پہنچی ہے جو کہ 2008 کے بعد سے مُلک میں مہنگائی کی بُلند ترین شرح ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ کیا جائے جس سے ایک طرف ڈیمانڈ کو آہستہ کرنے میں مدد ملے گی مگر دوسری جانب روپے کی ذریعے کاروبار کا پہیہ سُست ہونے سے بے روزگاری کا بھی خدشہ لاحق ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کا پروگرام معیشت کے لئے لائف لائن کی حثییت رکھتا ہے لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دینے کے حوالے سے غیر معمولی تاخیر کا مظاہرہ کرنا کسی سیاسی نوعیت کی رکاوٹ محسوس ہوتی ہے، شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو مُلکی معیشت میں استحکام کی خاطر ایک بار پھر میدان میں اُترنا پڑا اور انکی اس کاوش کی تعریف بھی کی جا رہی ہے۔انکی نائب وزیرِ خارجہ سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد مارکیٹ میں اس بات کی اُمید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں ہمیں بہتری کے آثار نظر آئیں گے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے ایکسچیج کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں اور اسی کے ساتھ ہمیں ڈالر کی قیمت میں کمی بھی دیکھنے کو ملی جو کہ مُلک کے لئے خوش آئند بات ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ آرمی چیف کے اس قابلِ تحسین اقدام کے جلد ہی مثبت نتائج نکلیں گے۔ اس بات میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات ڈگر گوں ہیں مگر یہ حالات مایوس کُن نہیں کیونکہ پاکستان کی رواں سال کی تمام مالی ضروریات کے لئے وسائل حکومت کے پاس موجود ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کی صورت میں پاکستان اس صورتحال سے جلد نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پاکستان کی درآمدات میں بھی بتدریج کمی آ رہی ہے اور جولائی کے مہینے میں تجارتی خسارہ 48فیصد کی ریکارڈ کمی کے ساتھ نیچے آیا ۔ پاکستان کی ماہانہ درآمدات ایک سال کے بعد ایک ارب ڈالر کی سطح سے نیچے آ گئی ہیں لیکن اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت درپیش ہے جس کے لے میرے مُلک کو ڈالر انکم کی اشد ضرورت ہے اس کے لئے تیز رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔ حکومت کے علاوہ اسٹیٹ بنک پاکستان کا اس صورتحال میں کلیدی کردار ہے، اور اسی کو زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہم سب کا گھر ہے اور اس کی بہتری کے لئے ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا۔ سیاست دانوں کو بھی مُعیشت کی بہتری کے لئے ایک میز پر بیٹھنا ہوگا میثاقِ معیشت کی تجویز اس حوالے سے نہایت کارگر ثابت ہو سکتی ہے، مُلک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کے لئے اس قسم کی دیر پا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اسی میں مُلک کی اور ہم سب کی عافیت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں